برما میں بدھ راہبوں کی دہشت گردی اور
عالم اسلام کی بے حسی
تیشہ فکر عابد انور
مسلمانوں میں جتنی بیداری آرہی ہے دنیا
اتنی ہی ان کا دشمن بن رہی ہے۔ کسی بھی خطے کی بات کریں مسلمان آنکھ میں کانٹوں کی
طرح چبھ رہے ہیں ۔کہیں علاقائیت کے نام پر تو کہیں حجاب کے نام پر، کہیں اسکارف کے
نام پر، تو کہیں حلال گوشت کے بائیکاٹ کے نام پر تو کہیں کسی اور نام پرلیکن ہر
جگہ ان کے خلاف نفرت اور محاذ آرائی ضرور نظر آتی ہے۔ یہودی یا عیسائی یا دیگراقوام
کی سوچ ہے کہ اگر کوئی مستقبل میں میدان کارزار میں کوئی نظر آئے گا تو وہ مسلمان
ہے۔ مسلمان جہاں بھی رہتے ہیں مذہب اور کلچر کو عزیز رکھتے ہیں جب کہ دیگرقومیں
دوسری قوموں میں ضم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے مسلم قوم کو حریف کی نظر سے دیکھتی ہیں جب
کہ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کے مذہب سے تعارض نہیں کرتے اور نہ ہی
کسی کے مذہب کو برا بھلا کہتے ہیں۔ کیوں کہ اسلام میں یہ بتایا گیاکہ کسی کے مذہب
کو برا مت کہو جب کہ مسلمانوں کو آئے دن خلفشار میں مبتلا رکھنے کے لئے ان کے مذہب
، ان کے پیغمبر کی شان میں گستاخی، ان کے مذہبی کتاب کی بے حرمتی، ان کے مذہبی
مقامات منہدم یا نذر آتش کئے جاتے ہیں ۔ مغرب کو جنہیں انسانی حقوق اور معاشرتی
رواداری اور اظہار آزادی پر بہت ناز ہے وہاں اکثرو بیشتر مسلمانوں کے ساتھ دل آزار
رویہ، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا کلمات کہنے
کے واقعات پیش آتے ہیں اور ان مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے اور
اظہار آزادی کے حق کا حوالہ دیکر لیپاپوتی کی جاتی ہے۔ جبکہ اگر کوئی مسلمان
ہولوکاسٹ کے خلاف کچھ بولتا ہے تو فوراً کارروائی شروع کردی جاتی ہے اور پھر آزادی
اظہار کا حق کہیں بارہویں قبیلہ کی طرح کھو جاتا ہے۔ ایسٹ تیمور یا جنوبی سوڈان میں
سرکشی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو مظالم اور قتل عام کہہ کر فوراً ملکوں کے دو
تکڑے کردئے جاتے ہیں لیکن جب معاملہ مسلمان کا ہو یافلسطین کا یا برما میں اراکان
کے مسلمانوں کے قتل عام کا تو تمام عالمی برادری کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور اقوام
متحدہ کا کردار صرف بیان جاری کرنے تک محدود رہ جاتا ہے۔ برما میں پھر ایک بار
مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے اور نہ صرف عالم اسلام بلکہ پورا عالم خواب
خرگوش میں مبتلا ہے۔ برما 1982 کے ایک قانون کے تحت مسلمانوں کو حق شہریت سے محروم
کردیا گیا ہے جب کہ وہ برما میں خلیفہ ہارون رشید کے عہد سے رہ رہے ہیں اور اراکان
خطہ میں مسلمانوں نے اپنی حکومت بھی قائم کی تھی جس کا خاتمہ 1740میں بڈھسٹ راجا
نے کردیا تھا اور اراکان کو برما میں شامل کرلیا تھا۔ حیرانی کی بات ہے کہ پوری دنیا
میں جمہوریت کے علمبردار ہونے کا ڈھول پیٹنے والی نوبل امن انعام یافتہ رہنما آنگ
سان سوچی نے اس قتل عام کی کبھی بھی مذمت نہیں کی اور نہ ہی بدھسٹوں سے اسے روکنے
کی اپیل کی۔ کسی دیگر قوم کے ساتھ اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا ہوتا تو حمایت
کے جرم میں نوبل انعام چھین لیا جاتا۔ افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی جب وہ گزشتہ سال ہندوستان کے دورے پر آئی تھیں مسلمانوں
کے قتل عام کے بارے میں ان سے کوئی بات نہیں کی تھی اورسری لنکا کے معاملے میں
آسمان سر پر اٹھایا جارہا ہے۔ آنگ سان سْوچی نے اس موقع پر کہا تھا کہ طرفین کا
نقصان ہوا اور یہ ان کا کام نہیں کہ کسی گروہ کی حمایت کریں یا ان کے مسائل کو
اجاگر کریں۔انہوں یہ بات ماننے سے بھی انکار کیا کہ آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو
برمی شہریت نہیں دی جا رہی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے برما کے روہنگیا مسلمانوں کو
دنیا کے سب سے زیادہ تکلیف میں رہنے والی اقلیتوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
گزشتہ سال ا11جون کومسلم مبلغ10مسلم
بستیوں میں دعوت کے لیے گھوم رہے تھے کہ بودھسٹوں کا ایک دہشت گردگروپ ان کے پاس آیا
اور ان کے ساتھ زیادتی شروع کردی ،انہیں مارا پیٹا ، درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ان کے جسموں پر چھری مارنے لگے ،ان کی زبانیں رسیوں سے باندھ کر کھینچ لیں یہاں تک
کہ دسیوں تڑپ تڑپ کر مرگئے ، مسلمانوں نے اپنے علما کی ایسی بے حرمتی اور وحشیانہ
موت پراحتجاج کیا، پھر کیا تھا، انسانیت سوز درندگی کا مظاہرہ شروع ہوگیا،انسان
نما درندوں نے مسلمانوں کی ایک مکمل بستی کو جلادیاتھا ،جس میں آٹھ سو گھر تھے ،
پھر دوسری بستی کا رخ کیا جس میں700 گھر تھے اسے بھی جلاکر خاکستر کردیا،پھر تیسری
بستی کا رخ کیا جہاں 1600گھروں کو نذرآتش کردیا اور پھر فوج اور پولیس بھی
مسلمانوں کے قتل عام میں شریک ہوگئی۔ جان کے خوف سے 9ہزار لوگوں نے جب بری اور بحری
راستوں سے بنگلہ دیش کا رخ کیا تو وہاں کی اسلام مخالف حکومت نے انہیں پناہ دینے
سے انکار کردیااور اس کے بعد سے اب تک بدھ مت کے دہشت گرد برمی فوج کے ساتھ مل کر
مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے ہزاروں مسلمانوں کو بڈھسٹ اور بودھ
بھکشوؤں نے مل کر قتل کیا اور لاکھوں کو ملک بدر ہونے کو مجبور ہوئے۔ پھر قتل عام
دوبارہ سلسلہ گزشتہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ اس دوران سیکڑوں مسلمانوں ، معصوم بچوں
اور خواتین کو زندہ جلاکر قتل کیاگیا ہے۔دلخراش تصاویر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے
کہ مہاتما گوتم بدھ یا ان کے ماننے والے شرمسار ہوں یانہ ہوں لیکن پوری دنیا کے
انصاف پسند افراد کا سر شرم سے ضرور جھک گیا ہوگا۔ برما مسلمانوں کو صرف قتل عام ہی
سامنا نہیں ہے بلکہ سماجی مقاطعہ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جس کی وجہ سے ان کے
لیے بازاروں سے اشیا خریدنا ناممکن ہوگیاہے۔ایک لاکھ دس ہزار کے قریب افراد ان
فسادات کی وجہ سے بے گھر ہو کر امدادی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں
بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ترکی کے وزیرخارجہ احمد داؤد اوغلو روہنگیا مسلمانوں
اور فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے
میانمار کا دورہ کیا تھا جس میں وزیراعظم کی اہلیہ ایمن ایردوآن ،ان کی بیٹی سمعیہ
ایردوآن اور داؤد اوغلو کی اہلیہ سارہ بھی شامل تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں کے حالات
کا جائزہ لیا تھا اور مسلمانوں کی امداد کیلئے تنظیم اسلامی کانفرنس کا ایک دفتر
کھولنے کا ارادہ ظاہر کیا جس کی اجازت برمی حکومت نے نہیں دی تھی۔ برما کے صدر تھین
سین نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو روہنگیا مسلمانوں کی مدد کے لیے اپنے
ملک میں دفتر کھولنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ برمی حکومت نہ صرف عالم
اسلام کی اپیل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک رہا ہے بلکہ عالمی برادری کی کسی بھی
درخواست کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔
برما میں مذہبی آزادی کی صورت حال
انتہائی خراب ہے گزشتہ سال رمضان میں صوبہ اراکان میں تین سو مساجدیں نمازیوں کے
لئے بند کردی گئیں۔ گھروں میں تراویح اور قرآن پاک سنانا ممنوع قرار دیا گیا تھا۔
مصری ویب سائٹ المحیط کے مطابق برما میں مسلمانوں کو سخت مسائل کا سامان ہے۔
متاثرہ علاقے کے باہر بھی سحری و افطار ممنوع تھا۔ مرتد ہونے سے انکار کرنے پر یاتو
مسلمانوں کوہجرت کرنی پڑتی، یا ملک بدری کا سامنا ہوتا ہے یا جان سے ہاتھ دھونا
پڑتا ہے۔ جو لوگ گھروبار نہیں چھوڑتے انہیں قتل، عورتوں کی آبروریزی جیسی وحشتناک
واردات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں اورضعیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ برما میں
گزشتہ سال جون کے مہینے میں ۲۰ ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔ دس ہزار
افراد لاپتہ تھے۔ پانچ ہزار مسلم خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا تھا ۔ مسلمانوں
کے سیکڑوں دیہات کو تخت و تاراج کردئے گئے، درجنوں مساجد شہید کی جاچکی ہیں۔ حکومت
نے برما کے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لئے مختلف حربے اپنائے ہیں۔ ان میں ایک
شادی پر پابندی بھی ہے۔ روہنگیا مسلمان اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتے۔ دولہا
دولہن کو شادی کے لئے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس کا عمل سخت ہے اور اس کے
لئے حکام کو بھاری رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس سے بہت سے غریب والدین اپنے بچے بچیوں کی
شادی نہیں کرپاتے۔ سخت تشدد کی وجہ سے مسلم لڑکے برما چھوڑ چکے ہیں اس وجہ سے شادیوں
میں دشواری ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق
برما کے مغربی صوبہ ارکان میں مسلمانوں کی آبادی پر حملوں کے دوران سنگین جنگی
جرائم کا ارارتکاب کیا گیا ہے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسی نے بڈھسٹ دہشت
گردوں (بدھ بھکشوؤں) کو مسلمانوں کی محصور بستیوں پر حملے کی کھلی چھوٹ دے رکھی
ہے، ان حملوں میں ہزاروں مرد، خواتین، بچے اور بوڑھے شہید کردئے گئے۔ ایمنسٹی نے
اس قتل عام کے لئے برما حکومت کو ذمہ دار قرار دیاہے۔ ارکان میں سیکڑوں مسلمانوں
کو حراست میں لیاگیا ہے اور یہ نہیں معلوم ہے کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔ ایمنسٹی
نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ بودی قبائل ایک منظم مہم کے تحت مسلمانوں کو قتل
عام کرتے ہوئے ان کی بستیوں کو نیست و نابود کردئے ہیں اور انتظامیہ مسلمانوں کو
کے قتل عام میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ہیومن رائٹس واچ
نے برما کی حکومت سے رخائن (اراکان)میں تشدد روکنے کے مزید کوششیں کرنے کے لیے بھی
کہا ہے۔اس کے ڈپٹی ڈائریکٹر برائے ایشیا فل رابرٹسن کے مطابق کہ ’برما کی حکومت
کوراخائن کے علاقے میں حملوں اور تشدد کا سامنا کرنے والی روہنگیا آبادی کو فوراً
تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ روہینگیا مسلمان قبائل اور بدھ مت کے پیروکاروں کے
درمیان فسادات میں سرکاری فوج اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی اور اس دوران
مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور بڑے پیمانے پر مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی۔ نیجون
میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مہم چلائی جس کے نتیجے میں برما میں فرقہ وارانہ
فسادات پھوٹ پڑے۔تنظیم کے مطابق چھپن صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کو جاری کرنے کا
مقصد دنیا کی توجہ برما میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف جاری ریاستی تشدد کی جانب
مبذول کروانا ہے۔ فل رابرٹسن کے مطابق برما کی حکومت نے امدادی کارکنوں اور صحافیوں
کومتاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں دی۔ہیومن رائٹس واچ نے برما کے مغربی
علاقوں میں نسلی فسادات میں ہونے والی تباہی کے مبینہ تصویری ثبوت پیش کیے ہیں۔اس
کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں کیاک پیو نامی ساحلی قصبے میں پینتیس ایکڑ
کے علاقے کو جلا کر تباہ کر دیا گیا ہے۔ اس تازہ تشدد کے دوران آٹھ سو سے زائد
مکانات اور ہاؤس بوٹس نذرِ آتش کی گئی ہیں۔ اس علاقے میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان
آباد تھے جو کہ بودھ آبادی کے حملوں کا نشانہ بنے۔ ہیومن رائٹس واچ نے سرکاری سکیورٹی
فورسز پر روہنگیا مسلمانوں پر فائرنگ کرنے اور ان پر حملے کرنے والے مسلح جنگجو
بدھ متوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا اور کہا ہے کہ برمی حکومت روہنگیا
مسلمانوں کو تحفظ مہیا کرنے کے بجائے انھیں قتل اور بے گھر کرنے والوں کا ساتھ دے
رہی ہے۔اگست میں حکومت نے بدھووں اور مسلمانوں کے درمیان تشدد کی تحقیقات کے لیے ایک
کمیشن قائم کیا تھا۔برمی حکومت نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قیادت میں تحقیقات
کرانے سے انکار کردیا تھا تاکہ بڈھسٹوں کا سفاک چہرہ آفشیل طورپر عالمی برادری کے
سامنے نہ آجائے۔
میانمار میں گزشتہ کئی برسوں سے
مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے بلکہ وہاں بے دریغ
مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے کئی علاقوں میں
مساجد اور مکانات کو بڈھسٹ راہبوں نے پولیس اور فوج کی سرپرستی میں جلایا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس واقعہ پر بالکل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
میانمار میں بڈھسٹوں نے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ اور بربریت آمیز سلوک کیا ہے وہ
انسان تو کسی جانور سے بھی اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تصاویر سے اندازہ ہوتا ہے
کہ وہ صرف جوانوں کو ہی نہیں بلکہ خواتین اور بچوں آگ میں بھون رہے ہیں بعض مناظر
ایسے ہیں جس ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹین کے نیچے آگ لگاکر اوپر بچوں اور عورتوں کی
لاشوں کو جلا رہے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ واقعی بڈھسٹ کے ماننے والے ہیں یا
بڈھسٹ پوری طرح سے دہشت گردی پر اتر آئے ہیں۔ اسی طرح تھائی لینڈ میں کیمپ میں آگ
لگی یا لگائی گئی جس میں کئی درجن مسلمان پناہ گزینوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ اب
اس کا دائرہ سری لنکا تک پھیل گیا ہے ۔اس سے پہلے سری لنکا میں مسلمان کے مساجد
اور مکانات پر حملے کئے گئے تھے۔ ابھی حالیہ واقعہ میں مسلمانوں کے تجارتی اداروں
کو بڈھسٹ نے حملہ کیا۔سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں انتہا پسند بْدھوں کی
جانب سے مسلمان تاجروں کے ملکیت والے گوداموں کی توڑ پھوڑ اور انہیں نذر آتش کیے
جانے کے واقعات پیش آئے ہیں۔28مارچ کو سینکڑوں سنہالی نسل سے تعلق رکھنے والے
بودھوں نے بودھ راہبوں کی قیادت میں پیپیلیانا میں مسلمانوں کی ملکیت والی ایک
کپڑوں کی دْکان پر دھاوا بول کر توڑپھوڑ کی تھی۔ اس واقعے میں تین افراد زخمی بھی
ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے ایک مرکزی آرگنائزیشن مسلم کونسل آف سری لنکا‘ کی طرف سے
کہا گیا ہے کہ ملک میں بدھوں اور مسلمانوں کے خلاف پائی جانے والی کشیدگی، گزشتہ
روز کے واقعے کے بعد شدت اختیار کر گئی ہے۔ کونسل کے صدر این ایم امین‘ کے مطابق،
ان واقعات نے مسلمانوں کے اندر نفسیاتی دباؤ اور خوف پیدا کر دیا ہے۔عینی شاہدین
کے مطابق جمعرات کو موقع پر موجود پولیس نے ابتدا میں حملہ آوروں کو روکنے کی کوئی
کوشش نہیں کی تھی۔ تاہم جب تشدد کا سلسلہ شدت پکڑ گیا تو پولیس نے دخل اندازی کی
اور حالات پر قابو پایا۔ سری لنکا میں نسلی فسادات اور تامل باغیوں کے خلاف کاروائیوں
کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔مسلمان سری لنکا کی کل آبادی کا نو فیصد ہیں اور سری
لنکا کے سخت گیر بْدھ ملک میں مسلم طرزِ زندگی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ
بھی سری لنکا کے سخت گیر سنہالی بدھوں کے ایک گروپ نے ملک میں حلال اشیا کے بائیکاٹ
کی مہم شروع کی تھی اور دکانداروں سے کہا تھا کہ وہ حلال اشیا کے اپنے تمام ذخیروں
کو اپریل تک ختم کر دیں۔بْدھ بالا سینا نامی اس گروہ نے دوسرے مذاہب کی تبلیغ کرنے
والوں کو بھی ایک ماہ کے اندر سری لنکا چھوڑنے کو کہا تھا۔ سری لنکا میں گزشتہ کچھ
عرصے سے مسجدوں اور مندروں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران کئی
مساجد کو نذر آتش کیا گیا ۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 1972ء اور 2009 ء کے
درمیان سری لنکا کی نسلی خانہ جنگی نے کم از کم ایک لاکھ جانیں لی ہیں۔ تامل باغیوں
کے خلاف سری لنکا کے فوجی آپریشن میں باغیوں کو بْری طرح کچلا گیا۔پوری دنیا میں
بڈھسٹ ایک نئے دہشت گرد کی شکل میں ابھررہے ہیں جب کہ اس مذہب کا دعوی امن و آشتی
کا ہے۔ تشدد ہر طبقے میں ہوتا ہے لیکن مذہبی طبقہ اس سے دور رہتا ہے لیکن بڈھسٹ میں
ایک خاص یہ نظر آرہی ہے کہ جتنے واقعات ہورہے ہیں اس میں بدھ بھشکو (راہب) ملوث
پائے جارہے ہیں ۔ میانمار ہو یا سر ی لنکا فسادیوں کی رہنمائی بدھ بھشکو ہی کر رہے
ہیں۔بڈھسٹ مذہبی رہنماؤں کو اس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے اس لئے جتنے بھی بڈھسٹ
مذہبی رہنما وہ سب کے سب خاموش ہیں۔ دلائی لامہ نے آج تک اس موضوع پر کوئی بات نہیں
کی اور نہ ہی اظہارناراضگی کیا اور نہ ہی کسی دیگر بڈھسٹ مذہبی رہنمانے تشد دکی
مذمت کی ہے تو اس کایہ مطلب سمجھ لیا جائے کہ وہ سب کے سب مسلمانوں کے خلاف اس تشد
دمیں شامل ہیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر،
اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments