رسوماتِ محرم ! اگر اسلام میں ہر سال ایام مخصوصہ میں سوگ منانا جائز ہوتا تو پھر ہم وفاتِ مصطفیٰ کا سوگ مناتے کہ دنیا میں مسلمانوں پر اس غم سے بڑھ کر نہ تو کوئی غم آیا ہے اور نہ آئے گا۔ اس امر کی چونکہ اسلام میں کوئی گنجائش و رخصت نھیں لہٰذا ہم اس غم کی سال بہ سال برسی نہیں مناتے

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
رسوماتِ محرم
ماہِ محرّم میں بالخصوص برصغیر پاکستان و ہندوستان کے علاقوں میں بہت سی بدعات اپنائی جاتی ہیں، جن میں محرّم کا چاند نظر آتے ہی سیّاہ لباس پہننا، سیاہ جھنڈے بلند کرنا، مجالس شہادت منعقد کرنا، نوحے اور مرثیئے پڑھنا، چُولہے اوندھے کر دینا، عورتوں کا زیورات اُتار دینا، ماتمی جلوس نکالنا، زنجیروں اور چھریوں سے خود کو زخمی کرنا، تعزیئے اور تابوت بنانا، پانی کی سبیلیں لگانا، کھچڑا پکانا، عاشوراء محرّم کے دوران خوشی کی تقاریب (شادی وغیرہ) نہ کرنا اور شہادت کا سوگ ہر سال منانا وغیرہ شامل ہے
ان بدعات کے مرتکب افراد ان تمام کاموں کو باعث ثواب جان کر انجام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان امور میں سے اگر کوئی ایک امر بھی ان سے خطا ہو گیا تو مذہب ہی ہاتھ سے جاتا رہا۔ اس کی مثال تعزیہ بنانے والے حضرات سے دی جا سکتی ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد مشرک و بدعتی اور بے نمازی و بے روزہ دار ہے، لیکن انھیں اس بات کی مطلق فکر لاحق نھیں ہوتی کہ فرائضِ اسلام ترک کر دینے پر یہ اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے لیکن تعزیہ بنانے کی فکر انھیں ماہ محرّم کی آمد سے بہت پہلے لگ جاتی ہے۔ جو تعزیہ پُشتہا پُشت سے ان کے ہاں بنتا چلا آ رہا ہے وہ ہر حال میں بنے گا جبکہ نہ وہ فرائضِ اسلام میں داخل ہے اور نہ سنّتِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم ہے اور نہ طریقِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے نہ مزعومہ آئمہ اربعہ سے اس کا جواز ثابت ہے نہ بزرگانِ دین سے یہ رسمِ قبیح ثابت ہے۔ صرف تعزیہ ہی کیا محرّم کی رسومات میں سے ایک بھی رسم ایسی نہیں جو کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو پھر کیوں کر نہ کہا جائے کہ یہ رسومات سراسر بدعات ہیں اور ان کے مرتکب دوزخی ہونے کے خطرے میں مبتلا ہیں، جب تک کہ ان بدعات سے توبہ نہ کرلیں
برادرانِ اسلام... ❗
میرے مخاطَب صرف اور صرف میرے وہ سنّی مسلمان بھائی ہیں جو کہ بدعات کے جھمیلوں میں گھرے ہوئے ہیں رسوماتِ محرّم کے نام سے جو بدعات سابقہ سطور میں ذکر کی گئی ہیں ان میں اس بات کا بالخصوص التزام کیا ہے کہ وہ بدعات گنی جائیں جن میں سنّی بھائی لا علمی، کم عقلی اور جہالت کے سبب مبتلا ہو گئے ہیں۔ کسی دوسرے مکتبئہ فکر پر اس تحریر کو اعتراض نہ سمجھا جائے۔ بہت سے سنّی بھائی بہن رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اور کچھ ان کے وسیع پروپیگنڈے کا شکار ہو کر مذکورہ بالا بدعات کا ارتکاب کیا کرتے ہیں
❗ صحیح علمِ دین نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے سنّی گھرانوں میں محرّم کی دس تاریخ کو چولہے اوندھے کردئیے جاتے ہیں
❗ نو بیاہی عورتیں عاشورہ اپنے اپنے میکے میں گزارتی ہیں
❗ شہادتِ حُسین رضی اللہ عنہ کے غم میں زیورات کا پہننا ترک کر دیتی ہیں
❗ عاشورہ کے جلوس میں روافض (شیعوں) کے جلوس سے آگے سنّی عوام کے تعزیوں کا جلوس ہوتا ہے، اسی طرح ان کے جلوس کے پیچھے سنّیوں کا ماتمی جلوس ہوتا ہے جس میں پٹّہ بازی اور منہ سے آگ نکالنے اور تلوار بازی وغیرہ کے تماشے کیے جاتے ہیں، ان کے نیچے سے بچّوں اور بیماروں کو گزارا جاتا ہے جبکہ یہ رسم بُت پرستی سے کسی طرح کم نہیں
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ کربلا کا فسانہ اور شہید مظلوم کی خود ساختہ داستانیں اور ان پر پانی بند ہونے کے جھوٹے قصّے سنتے سناتے ہیں، وہی محرّم کے مہینے میں شربت کے مٹکے اور کچھڑے کی دیگیں کھا پی کر اپنی توندیں بڑھا رہے ہیں
ان كے دلوں میں اگر ان بزرگوں کی محبّت ہو تو انہیں بھی یہ دن بھوکے پیاسے رہ کر گزارنا چاہیئے تھا۔ اسی طرح ان کے بیان کردہ افسانوں کے مطابق انہیں عاشورہ محرّم کے دوران شادیاں بھی کرنی چاہیئے جیسا کہ قاسمؒ کی مہندی خود انہی کے بقول کربلا کے میدان میں شب عاشورہ میں لائی گئی تھی
عقل کے اندھوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دولہا اور دلہن کی رسمِ مہندی ایک خالصتًا ہندی رسم ہے عرب علاقوں میں آج بھی مہندی نام کی کوئی رسم نہیں پائی جاتی
❗ اس مہندی کے سلسلے میں ملیدہ بنتا ہے جو بہت سے مسلمان علمِ دین نہ ہونے وجہ سے تعزیوں پر چڑھاتے ہیں
حُسین رضی اللہ عنہ اور دیگر شُہداء جو کربلا کے میدان میں خود ان روافض (شیعوں) ہی کے ہاتھوں قتل ہوئے، اپنے مظلُومانہ قتل کے سبب شہید کہلائے جاتے ہیں
قرآن و حدیث کے نصوص کی رو سے شُہداء کو اللہ تعالیٰ حیاتِ جاودانی عطا فرماتا ہے اور اسلام میں کسی بھی شخص کی موت یا شہادت پر تین دن سے زیادہ کا سوگ نہیں ماسوا بیوہ عورتوں کے، وہ اپنے خاوند کی موت و شہادت پر (قمری) چار ماہ دس دن کا سوگ کرتی ہیں پھر اس سوگ کا ہر سال اعادہ نھیں کرتیں، مگر ہمارے نادان سنّی بھائی ہر سال رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی شہدائے کربلا کا سوگ مناتے ہیں حالانکہ اگر اسلام میں ہر سال ایام مخصوصہ میں سوگ منانا جائز ہوتا تو پھر ہم وفاتِ مصطفیٰ کا سوگ مناتے کہ دنیا میں مسلمانوں پر اس غم سے بڑھ کر نہ تو کوئی غم آیا ہے اور نہ آئے گا۔ اس امر کی چونکہ اسلام میں کوئی گنجائش و رخصت نھیں لہٰذا ہم اس غم کی سال بہ سال برسی نہیں مناتے
علاوہ ازیں بہت سے سنّی مسلمان اس ماہ میں رافضی (شیعہ) لوگوں کی دیکھا دیکھی اپنے بچّوں کو عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے ہیں۔ انهیں کلاوے پہنائے جاتے ہیں۔ پھر وہ بچّے در در جا کر بھیک مانگتے ہیں، پھر اس بھیک کی رقم سے عبّاس رضی اللہ عنہ کی فاتحہ دلائی جاتی ہے۔ یہ رسم بھی بدعت ہے۔ اگر عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا ازروئے شریعت جائز ہوتا تو زین العابدین اپنے بیٹے باقر کو اور وه اپنے بیٹے جعفر کو اور وه اپنے بیٹے موسٰی کاظم کو اور موسٰی کاظم اپنے بیٹے علی رضا کو اور وه اپنے بیٹے محمد تقی، اپنے بیٹے علی نقی اور اپنے بیٹے حسن عسکری کو ضرور عبّاس رضی اللہ عنہ کا فقیر بناتے کہ یہ لوگ ان کے قرابت دار اور اولاد ہونے کے ناطے ان امور کو انجام دینے کے واقعتًا مستحق تھے
رسوماتِ محرّم صرف بدعت ہی نھیں بلکہ شرک کے زمرے میں بھی آتی ہیں
اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ اللہ ہم سب کو ہر طرح کے شرکیہ اعمال سے اور ہر طرح کی بدعات سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق دے۔ اور ہم سب کو قرآن، توحید، سنّت، اور صحیح احادیث پر عمل کرنے کی توفیق دے
آمین
اللہ کی رحمت کا طلبگار
ابوبکر تنویر عظمت
اسلامک میسج کے لیے اس نمبر کو ایڈ کریں
00966507584528

Comments

Popular posts from this blog

#Modi G ! कब खुलेंगी आपकी आंखें ? CAA: एक हज़ार लोगों की थी अनुमति, आए एक लाख-अंतरराष्ट्रीय मीडिया

"बक्श देता है 'खुदा' उनको, ... ! जिनकी 'किस्मत' ख़राब होती है ... !! वो हरगिज नहीं 'बक्शे' जाते है, ... ! जिनकी 'नियत' खराब होती है... !!"