کیا دہائیوں سے جدوجہد کرنے والے کشمیری پاکستان سے ناامید ہو چکے ہیں؟
اگست 1947 میں جب برِ صغیر انڈیا اور پاکستان کی دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہو گیا تو سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں کئی روز تک لوگوں نے جشن منایا۔
اُس وقت کے مقبول رہنما شیخ محمد عبداللہ جیل میں تھے لیکن معروف سماجی مصلح اور مذہبی رہنما مولوی محمد یوسف شاہ راولپنڈی روڈ کے ذریعہ قائد اعظم محمد علی جناح کو مبارکباد دینے کراچی پہنچے تھے لیکن بعد میں اُنھیں حکومت ہند نے واپس کشمیر لوٹنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
محقق، مصنف اور معروف تجزیہ نگار پی جی رسول کہتے ہیں کہ شیخ عبداللہ کو علم نہیں تھا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ ’تاہم اکتوبر میں جب وہ رہا کیے گئے تو اُنھیں مہاراجہ کی نگرانی میں ہی جموں و کشمیر کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر (ہنگامی منتظم) بنایا گیا۔‘
پورے انڈیا اور پاکستان کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر جاری تھی اور نومبر میں جموں کے کئی علاقوں میں ہندو انتہا پسندوں نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کر کے جموں صوبے کا مسلم اکثریتی کردار ختم کر دیا تھا۔
تقسیم ہند کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو سال تک جنگ جاری رہی اور اس دوران پاکستان کے قبائلی عسکریت پسندوں نے بھی مقامی مزاحمت کاروں کی مدد کے لیے سرینگر کا رُخ کیا۔
یہ بھی پڑھیے
تاہم انڈین فضائیہ نے سرینگر کے مغربی علاقہ شال ٹینگ میں بمباری کر کے قبائلی عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روک دیا اور اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کے اعلان کے بعد شیخ عبداللہ نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا ایمرجنسی ایڈمنسٹریٹر بنتے ہی پاکستان کی طرف سے کشمیر پر چڑھائی کے خلاف تحریک چھیڑنے کی کوشش کی۔
کئی جگہوں پر شیخ اور اُن کے حمایتیوں نے لاٹھیاں اور کدالیں لے کر یہ تاریخی نعرہ بلند کیا: ’حملہ آور خبردار، ہم کشمیری ہیں تیار‘۔ تاہم اکثر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شیخ عبد اللہ نے غالب عوامی خواہشات کے برعکس انڈیا کا ساتھ دیا تھا۔
لیکن غالب اکثریت پاکستان نواز تھی تو شیخ عبداللہ کے لیے یہ ممکن کیسے ہوا؟
معروف اشتراکی دانشور اور سیاستدان آنجہانی رام پیارا صراف نے 20 سال قبل میرے ساتھ ایک گفتگو کے دوران بتایا: ’اُس وقت جنوبی ایشیا میں کمیونسٹ لہر جاری تھی اور جواہر لعل نہرو نے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو کمیونسٹ نظریات کا حامل بنایا تھا۔
’پارٹی کا نام پہلے ہی مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس اور جھنڈا سبز سے سُرخ ہو گیا تھا اور بعد میں سرینگر کے مرکزی علاقہ شیخ باغ کا نام ماسکو کے ریڈ سکوائر کے نام پر لال چوک رکھا گیا۔‘
پی جی رسول کہتے ہیں کہ کشمیر کی کمیونسٹ لابی میں کشمیری پنڈتوں کا گہرا اثر تھا اور انھوں نے شیخ عبداللہ کے سیاسی نظریات پر انڈین قوم پرستی کا ملمعہ چڑھا دیا تھا۔
’لیکن عوام کی غالب اکثریت انڈیا کی بجائے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی اور شیخ نے انڈیا کے لیے عوامی خواہشات کا دھارا اشتراکی نظریات کی مدد سے موڑ دیا۔‘
1947 سے 1953 تک کشمیر بھارتی وفاق میں ایک خصوصی خطہ تھا، جس کے حکمران شیخ عبداللہ ’وزیراعظم‘ اور گورنر ڈاکٹر کرن سنگھ ’صدر ریاست‘ کہلاتے تھے۔ اُن پانچ یا چھ برسوں کے دوران شیخ عبداللہ انڈیا نواز کشمیری قوم پرستی کا پرچار کرتے رہے، لیکن اُنھیں مولوی یوسف شاہ کے خاندان اور اُن کے لاکھوں حمایتیوں کی طرف سے زبردست مخالفت کا سامنا رہا۔
ہر سال 14 اگست کے روز مختلف علاقوں میں پاکستانی یوم آزادی کے موقع پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا اور پریڈ کی جاتی۔ ان تقاریب کو پولیس تتر بتر بھی کرتی تھی، لیکن کشمیر کا سیاسی بیانیہ سیکولر .انڈیا کے ساتھ خودمختار کشمیر اور پاکستان نوازی کے لہجوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔
1953 کے اگست میں جب حکومت ہند نے ’وزیراعظم‘ شیخ محمد عبداللہ کو معزول کر کے جیل بھیج دیا تو شیخ نے جیل سے ہی پاکستان نواز تحریک چلائی جس کا نام ’محاذ رائے شماری‘ رکھا گیا۔
بھارت کے پہلے انٹیلجنس چیف بی این ملک اپنی کتاب ’مائی یئرز وِد نہرو کشمیر‘ میں لکھتے ہیں کہ دو دہائیوں تک محاذ رائے شماری کے لیے پاکستان فنڈنگ کرتا رہا اور اس کے لیے شیخ عبداللہ کے دستِ راست پیر مقبول گیلانی راولپنڈی اور سرینگر کے درمیان معتبر رابطے کا کام کرتے رہے۔
شیخ عبداللہ جب جیل میں تھے اور اُن کے معتمد مرزا افضل بیگ لوگوں کے ہجوم میں ٹھوس نمک (پاکستانی نمک) ٹھیکری اور سبز رومال لہرا کر بھیڑ کے جذبات اُبھارتے تھے۔
مبصرین کہتے ہیں کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ ہوا اور پاکستان دو حصوں میں بٹا تو جیل میں شیخ عبد اللہ کو اس بات پر قائل کر لیا گیا کہ پاکستان کا وجود چند سال کی کہانی ہے۔
سیاسیات کے محقق اور کالم نگار جاوید نقیب کہتے ہیں کہ ’اُس وقت ظاہر ہے سب کو یہ لگتا تھا کہ انڈیا پاکستان کی بُری حالت کرنے والا ہے۔
’شیخ عبد اللہ نئی دہلی کے ساتھ کشمیریوں کی پاکستان نوازی کے نام پر بارگین کرنا چاہتے تھے۔ وہ باور کرتے تھے کہ لوگ انڈیا نواز ہو جائیں گے اگر اُن کی حکمرانی میں خلل نہ ڈالا جائے۔’
یہی وہ سال تھا جب اندرا گاندھی کی طرف سے اُس وقت کے سفیر جی پارتھا سارتھی اور شیخ عبداللہ کی طرف سے مرزا افضل بیگ نے مذاکرات کے طویل سلسلہ کی شروعات کیں جو 1975 میں ’اندرا۔عبداللہ ایکارڈ’ پر منتج ہوئیں۔
’اس کے عوض شیخ عبداللہ کو حکومت ملی، لیکن اب وہ وزیراعظم نہیں بلکہ وزیراعلیٰ تھے، اور صدر ریاست کا عہدہ گورنر میں بدل گیا تھا۔ خود مختاری اب چند معاملوں تک محدود تھی۔‘
شیخ عبداللہ نہایت مقبول تھے اور اب اُن کے پاس طاقت بھی تھی، لہٰذا پاکستان نوازی کا جذبہ دبانے میں وہ کامیاب ہوئے، لیکن .انڈیا مخالف جذبات اندر ہی اندر دہکتے رہے۔
شیخ کی وفات کے بعد اُن کے فرزند فاروق عبداللہ حکومت کا تختہ بھی 1984 میں پلٹ دیا گیا تو پاکستان نواز جذبات کو مزید تقویت پہنچی۔
فاروق کی حکومت اُن سے اُس دستخط کے بعد چھین لی گئی جو اُنھوں نے محمد مقبول بٹ کی پھانسی کے حکم نامے پر کیے تھے۔
ایک زمانے میں کشمیریوں کے سیاسی پیشوا رہنے والے شیخ عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس اور شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ کی مقبولیت اب بتدریج گھٹ رہی تھی۔
اسی دوران کشمیر کے تقریباً سب ہی ہند مخالف حلقوں نے نیشنل کانفرنس کے خلاف ’مسلم متحدہ محاذ’ نام سے ایک اتحاد قائم کر کے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا۔
1987 میں ہونے والے ان انتخابات میں شرمناک دھاندلی ہوئی اور جن لوگوں کو جیت کر بھی شکست خوردہ قرار دیا گیا اُن میں محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین بھی تھے، جو اب کشمیر کی سب سے پرانی مسلح تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور کئی مسلح گروہوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل کے چئیرمین ہیں۔
الیکشن میں اُن کے ایجنٹ یاسین ملک جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ فی الوقت جیل میں ہیں اور اُن پر الزام ہے کہ انھوں نے انڈین فضائیہ کے چار افسروں کو قتل کیا تھا۔
اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ سنہ 1987 کے انتخابات میں ہوئی دھاندلی نے کشمیریوں کو بندوق اُٹھانے پر آمادہ کیا۔
اُس کے بعد ہلاکتوں، ظلم و جبر، قدغنوں، گرفتاریوں، کشیدگی اور غیریقنیت کا جو طویل دور شروع وہ اب 30 سال سے جاری ہے۔
لیکن عوام کی غالب اکثریت مسلسل پاکستان نواز رہی، اور عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے ہی نہ صرف حکومت سیکورٹی پالیسی ترتیب دیتی رہی بلکہ یہاں کے انڈیا نواز سیاستدان بھی اپنا لہجوں میں اُسی حساب سے تراش خراش کرتے رہے، تاکہ وہ لوگوں سے ووٹ حاصل کر سکیں۔
گذشتہ سات دہائیوں کے دوران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاست کا ایک ہی رُخ رہا ہے، لیکن سیاسی ڈھانچے پر انڈیا کا ہی غلبہ رہا۔
تجزیہ نگار اور ماہر اقتصادیات اعجاز ایوب کہتے ہیں: ’یہاں ہمیشہ انڈیا کو سیاسی اہمیت حاصل رہی اور پاکستان کو جذباتی۔ نہ پاکستان جذبات کو سیاست میں ڈھال سکا اور نہ انڈیا سیاست کو جذبات میں۔‘
موجودہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ روایتی طور پر ہند نواز رہ چکے سیاسی رہنماوں پر نئی دہلی نیم علیحدگی پسندی کا الزام عائد کررہی ہے۔
اُنھیں گذشتہ برس پانچ اگست کے فیصلے سے پہلے ہی گرفتار کیا گیا اور جب وہ طویل نظر بندی کے بعد رہا ہوئے تو اُن کا لہجہ نہایت محتاط بن چکا تھا۔
ایک سال کی غیریقینی صورتحال کے دوران فوجی کاروائیوں میں 200 عسکریت پسندوں کے علاوہ 73 عام شہری اور 76 سکیورٹی اہلکار مارے گئے۔
تیزرفتار انٹرنیٹ پر پابندی ہے، تعلیم اور تجارت معطل ہے اور فضا میں خوف طاری ہے کہ بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کر کے خطے کو ایک ہندو اکثریتی خطے میں بدل کر مسلمانوں کو سیکنڈ کلاس شہری بنا کے رکھ دے گی۔
اس سب کے بیچ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے پچھلے سال اکتوبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے کے دوران کہا تھا کہ مسلح مزاحمت کشمیر کے کاز کے لئے مُضر ہے۔
انھوں نے پوری دُنیا میں کشمیریوں کا سفیر بننے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر عالمی حمایت حاصل کرے گا۔
اس دوران ایل او سی پر بھی کشیدگی رہی اور انڈیا چین مناقشہ بھی علاقائی امن کے لیے خطرہ بنا رہا لیکن کشمیریوں کو 70 سال میں پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اپنے مسائل میں اس قدر اُلجھا ہوا ہے کہ وہ انڈیا کو نہ کشمیریوں کو رعایت دینے پر مجبور کر سکتا ہے اور نہ مذاکراتی میز پر لا سکتا ہے۔
تجزیہ نگار جاوید نقیب کہتے ہیں: ’ضروری نہیں کہ یہی سچ ہو، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے پانچ اگست کے بعد حالات کو کنٹرول کرنے میں انڈیا کی نادانستہ مدد کی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لوگ پاکستان کی طرف دیکھتے رہے اور پاکستان اقوام متحدہ کی طرف۔ اس میں تو انڈیا کو بھی شک نہیں کہ انتخاب کا حق دیا جائے تو کشمیریوں کی اکثریت پاکستان کو ووٹ دے گی، لیکن زمینی حالات بدل رہے ہیں اور پاکستان عالمی اخبارات میں مضامین اور اقوام متحدہ میں بند کمروں کے اجلاس پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔
’لوگ کھلے عام پاکستان کے خلاف نہیں بول سکتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ 30 سالہ قربانی اُن سے کس وعدے پر لی گئی تھی۔‘
https://www.bbc.com
https://www.bbc.com
Comments