مفکر اسلام جناب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃُ اللہ علیہ سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاہ فیصل سے* *ملاقات اور عجیب نصیحت* *
*مفکر اسلام جناب حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃُ اللہ علیہ سابق ناظم دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاہ فیصل سے* *ملاقات اور عجیب نصیحت* *مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ شاہ فیصل سے ملاقات کیلئے جب ان کے محل تشریف لے گئے، تو محل کی خوبصورتی، اس کی سجاوٹ اور اس کی آرائش و زیبائش دیکھ کر شاہ فیصل سے یوں گویا ہوئے:* *میں سوچ رہا ہوں اور مجھے یاد آرہا ہے کہ ہمارے ہندوستان میں بھی ایک بادشاہ گذرا ہے، اس کی سلطنت آج کے پورے ہندوستان اور پاکستان پر نہیں بلکہ نیپال، سری لنکا اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی، اس نے 52 سال اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کی، مگر اقتدار کے 52 سالوں میں سے 20 سال گھوڑے کی پیٹھ پر گذارے، اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے، خوشحال تھے، ان کیلئے ہر قسم کی آسانیاں تھیں لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا، قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر اپنا خرچ چلاتا تھا، خزانے کو ﷲ کی اور اس کی مخلوق کی امانت سمجھتا تھا، وہ خود روکھی سوکھی کھاتا، مگر دوسروں کیلئے لنگر چلاتاتھا، وہ خود تنگ دست تھا مگر دوسروں کیلئے موتی لٹاتا تھا، ...